کتاب "خاکہ زنی" پر ثمینہ سید کا تبصرہ |
کتاب:خاکہ زنی
مصنف:ڈاکٹر اشفاق احمد ورک
تبصرہ:ثمینہ سید
وہ جو فرد کو تصویر کرتا ہے
خاکہ نگاری انگریزی میں سکیچ یعنی ڈھانچہ بنانا. کسی تخلیق کا مسودہ تیار کرنا.کسی شخصیت کی شگفتہ اور دلچسپ پیرائے میں ایسی تصویر کشی کہ شخصیت کا ظاہرو باطن عیاں ہوجائے.
یہ مضمون نگاری کی ایک قسم ہی ہے جس میں خاکہ نگار شخصیت کے ان پہلوؤں کو پا لیتا ہے جسے عام آدمی کی نظر نہیں دیکھ پاتی. ماہرین اسے کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ بھی کہتے ہیں. بڑے بڑے خاکہ نگار ہیں مرزاادیب ,شفیق الرحمن, ممتاز مفتی, احمد بشیر, عطاء الحق قاسمی,مشتاق احمد یوسفی, ضمیر جعفری,اور عہد حاضر میں اعجاز رضوی, یونس بٹ
ہمیں "خاکہ زنی" استادِ محترم جناب ڈاکٹر اشفاق احمد ورک صاحب کے ہاتھ سے موصول ہوئی .کیونکہ جناب کی برجستہ گفتگو, بلند پایہ شخصیت اور شدید عاجزی انکساری بھرے انداز نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متزلزل کردیا کہ "موصوف دراصل کیسے انسان ہیں ؟" استادیاں جھاڑنے والے, استادانہ رعب وداب سے لیس یا پھر استاد ہونے کی باریک بین رمز سے شناسا.
ان کا کام ہی ان کا تعارف ہے. لیکن میرے لیے ان کا تعارف میرے نہایت معتبر بہنوئی راجہ ریاض جو کہ معروف صحافی ہیں اور ہمارے گھرانے کے بہت ہردلعزیز شخصیت ہیں ان کے قریبی ترین دوست کی حیثیت سے ہوا. پھر مجھے دونوں کے درمیان بیٹھ کے "ان دونوں " کے زمانہء تعلیمی کے بے شمار رازوں اور دنگوں کی داستانوں کی جانکاری مل گئی. میں نے احترام کو ملحوظ رکھنے کی سرتوڑ کوشش کیے رکھی لیکن ان کے برجستہ جملے اور بےساختہ قہقہے میری سماعتوں میں مسلسل اتر رہے تھے.میں نے دل سے دعا کر ڈالی کہ ان دونوں باوقار اور بظاہر غیر سنجیدہ انسانوں کے اندر یہ شرارتی بچہ ہمیشہ یونہی کلکاریاں مارتا رہے. اسی دوران جناب اشفاق احمدورک صاحب کی تازہ کتاب "خاکہ زنی "جو میری نگاہ کی زد میں تھی ان کے مختصر سے نوٹ کے ساتھ مجھے "دان " کردی گئی. جو میرے لیے اعزاز کی بات ہے. کہ یہ ایک طویل عرصہ کے بعد میری دوبارہ سے طالب علمی کا پہلا دن تھا.
کتاب پڑھنے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استادکی دوسری "قسم" تیزی سے آشکار ہونے لگی.جو علم وہنر, شگفتہ لہجے اور استاد ہونے کی ہر رمز سے شناسا ہے.
اشفاق ورک جن کا تعلق شیخوپورہ سے ہے.تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور جناب مزاح نگار, خاکہ نویس, محقق, نقاد, شاعر ,کالم نگار اور ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں اردو کے پروفیسر ہیں.
اشفاق احمد ورک صاحب خاکہ نگاری کے بارے میں خود یہ کہتے ہیں.
"حقیقت میں خاکہ کشی کا لطف ہی عام آدمی بلکہ بالکل ہی عام آدمی کے اوپر قلم اٹھانے میں آتا ہے. مفروضے اور مبالغے کے جتنے چاہو مسالے ڈال لو, لوگ چٹخارے پہ چٹخارہ لیتے چلے جائیں گے.قلم وقیاس کے دانت جتنے مرضی تیز کرلو چاروں جانب سے داد و تحسین کے ڈونگرے برستے دکھائی اور سنائی دیں گے عام آدمی کا خاکہ لکھنا تو دانتوں سے اخروٹ توڑنے جیسا کڑاکے دار ہوتا ہے. اس میں کہنی سے تربوز توڑنے جیسی بےساختگی پائی جاتی ہے. اس میں بکرے کی نلی سے مخ سڑکنے جیسا سرور کشید کیا جاسکتا ہے. جب کہ بڑے آدمی سے چھیڑ چھاڑ کا مطلب تو آبیل مجھے مار والا ہی ہوتا ہے. ہمارے اندر کے خاکہ نگار کو تو کسی آدمی کے معروف ہونے یا منزلِ انسانیت کی طرف اڑان بھرنے کا ذرا سا شائبہ بھی ہوجائے, تو اس کے اندر باہر 'باادب, باملاحظہ, ہوشیار ' کا رے ڈار آن ہوجاتا ہے. "
کتاب پڑھتے پڑھتے ہم اشفاق صاحب کی اس رائے کے جادو سے یکسر نکل آئے اور ان کی ہی کہی ہوئی یہ مختصر سی بات جامع حیثیت اختیار کرگئی.
"ایسےمیں خاکہ زنی تو ڈاکہ زنی کی جڑواں بہن محسوس ہونے لگتی ہے. "
ڈاکہ زنی والی دلیری اس کتاب میں اور مصنف کے اندازِ تحریر میں مسلسل نظر آئی. اور لطف دوبالا کرتی رہی.
خاکہ نگاری کی شگفتگی شخصیات تک رسائی میں تادمِ آخر تازگی کا احساس دلاتی ہے. کتاب پڑھ کے دیکھئے آخری صفحات تک پہنچتے پہنچتے اضطراب سر اٹھانے لگتا ہے. کہ "کاش کچھ صفحات اور ہوتے"
کتاب کے دوسرے ہی باب "سلسلہ شیرانیہ کا مظہر" میں لکھتے ہیں
" سچ بات ہے کہ محترم شخصیات, ہم مزاح نگاروں کے لیے تو "پکی تھاں" اور چوتھی کھونٹ کی مانند ہوتی ہیں,جہاں سے والدین ساری عمر بغیر وضو کے گزرنے سے ٹھاکتے رہتے ہیں. "
ایک جگہ ہم عصروں اوردوستوں کو اعلیٰ مراتب اور بڑے سنجیدہ القابات میں لگے لپٹے دیکھ کر خاصا کڑھتے ہیں. ان کے شخصیت بننے کے خبط میں مبتلا ہونے والے حصے میں ممتاز مفتی کا ایک جملہ رقم کرتے ہیں.
"بڑے بوڑھوں نے احترام اس لیے ایجاد کیا تھا تاکہ چھوٹوں سے فاصلے قائم رہیں, کہیں محبت کی رسم نہ چل نکلے. "
پھر لکھتے ہیں.
" سچ بات یہی ہے کہ بھری جوانی میں جس شخص کے اپنے اندرکے الہڑ شریر بچے سےقلمی و قلبی دوستی نہیں ہوتی... اس 'صالح تر' آدمی کی ٹھیک ٹھاک قسم کی عزت تو ہوسکتی ہے, اس سے محبت نہیں ہوسکتی. یقین جانیں کبھی کبھی تو مجھے ان عظیم لوگوں پر ترس آتا ہے جن کے بارے میں پڑھتا ہوں کہ ان کی ساری زندگی نہایت عزت و احترام سے گزری. "
" آج جب میں اپنے ہی دور کے کسی شخص کے نام کے ساتھ حضرت! حضورِوالا! قابلِ صد احترام اور لائقِ تکریم وغیرہ کے سابقے دیکھتا ہوں تو مجھے اس کی شخصیت وکردار میں سے دیسی گھی کی پنجیری کی لپٹیں اٹھتی محسوس ہوتی ہیں. "
ابھی میں یہیں تک پہنچی ہوں گہری مسکراہٹ اور کئی بار کھل کے ہنسنے پہ مجھے پہلے صفحے پہ جناب مستنصرحسین تارڑ صاحب کے فقرے سے متفق ہونا پڑا.
"اگر کوئی شخص اپنی پسلیوں پر ہاتھ رکھ کر ہائے ہائے کرنے کی بجائے مسکراتا چلا جا رہا ہوتو یقین کریں کہ وہ اشفاق ورک کی تحریریں پڑھ کر آرہا ہے. "
فیض احمد فیض کا خاکہ اس قدر جاندار اور بھرپور لکھا ہےکہ فیض کی شخصیت کے بےشمار پوشیدہ پہلوؤں تک سے شناسائی مل گئی لیکن اختصار کا حسن اپنی جگہ برقرار رہا. فیض کے عہد کے لوگ , انکی فیض احمد فیض سے محبت اور ان کے تمام سفر میں پہلی محبت کی اہمیت تک راز نہ رہی. لکھتے ہیں.
"دوستو! لوگ باگ جو بھی کہیں,ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ فیض احمد فیض اپنے عہد میں قید و بند کی تمام تر صعوبتوں کے باوجود ادب کا روشن ستارہ ہیں. نفرتوں سے لتھڑی اس سوسائٹی میں محبتوں کا استعارہ ہیں. "
بےتکلفی میں چھپی بلکہ چھلکتی محبت کے قائل ہیں کتاب میں جگہ جگہ یہ احساس اجاگر کرنے کے لیے بہت دل چسپ اور ہلکے پھلکے واقعات بیان کرتے چلے جاتے ہیں جن کا مکمل مزہ کتاب پڑھنے سے ہی لیا جاسکتا ہے. بچوں کے ناموں پر ان کے شاہانہ عرفِ عام پر اور رشتوں میں ادب وآداب پر نہایت شگفتگی سے خبر لیتے نظر آتے ہیں.
"یہ تارڑ تارڑ کیا ہے" میں مستنصر حسین تارڑ کی پیدائش کو اور نام رکھنے کے مراحل کو نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں.کہ جب مستنصر کے ساتھ دوسرا نام جوڑنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو
"ذات پات کے نشے میں سرشار اہلِ خانہ کو باللہ کی مقامی ادائیگی میں واقع ناخوشگواری تو نظر آگئی لیکن لفظ تارڑ میں موجود صوتی ناملائمت کا ذرا بھی احساس نہ ہوپایا.یہ صدمہ تو کچھ شائستہ مزاج اور نرم گفتار اہلِ زبان کا دل ہی جانتا ہے."
"معاملہ فہم "کے نام سے عطا الحق قاسمی صاحب کا خاکہ لکھتے ہوئے معاملہ فہمی, زمانہ شناسی اور احتیاط خوب اچھے طریقے سےنبھائی.
کچھ اچھوتے,ہمکتے جملے ملاحظہ کیجئے.
"آخر نکلا ناں مولوی باپ کا شولوی بیٹا"
پرلطف پیرائے میں ابتدا سے انتہا تک خاکہ یکسر غیر جانبدارانہ لیکن معتدل رہا.
" شدید آمریت کے عفریت کے لیے تو اس کے کالم, بارہ سنگھے, کا روپ دھار لیتے. البتہ مفید آمریت کے لیے یہی قلم پالتو ہرن کی مانند چوکڑیاں بھرتا. "
امجد اسلام امجد صاحب کا خاکہ "پیدا کہاں ہیں ایسے'فراخندہ طبع' لوگ "جیسے خوب صورت عنوان سے لکھتے ہیں. ان کی مقبول زمانہ نظم درج کر کے اس سے ہر دور کے لوگوں کی وابستگی کو بہت محبت سے خاکے کا حصہ بناتے ہیں.امجد صاحب کی شہرت اور ہردلعزیز شخصیت کو پورے انصاف سے رقم کرتے جاتے ہیں.شگفتہ لہجے میں کہتے ہیں کہ
"اس زمانے میں یار لوگوں نے بہتیری تگ ودو کی کہ کہیں نہ کہیں سے امجد اسلام امجد کو سمیٹ کر, تھوڑا بہت لپیٹ کرکسی کونے کھدرے میں اپنا ٹھپا لگانے کی کوشش کریں لیکن دوستو 'گلی گلی میری یاد بچھی ہے' والا معاملہ تھا, کہاں کہاں سے سمیٹتے؟.
"اردو نظم کو اس زمانے میں مشاعروں کی رانی بنایا, جبکہ غزل صاحبہ بلا شرکت غیرے سامعین وقارئین ادب کے دلوں کی دھڑکن بنی بیٹھی تھی.
"یاد میں بیٹھا منشایاد "اس خاکے کا حرف حرف عقیدت بھری محبت سے لکھا ہے.
"ایسا خوب صورت, خوب سیرت, مخلص انسان اور بےپناہ تخلیق کار شاید ہی چشمِ فلک نے ملاحظہ کیا ہو. "
منشا یاد کی علمی, ادبی کاوشوں اور سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد نئے زمانے اور ایجادات سے ہم آہنگ ہوکر کام کرنے کے جذبے اور لگن کو سراہتے ہیں.
"منشایاد تو ہردلعزیز شخصیت تھے, جنہوں نے پہلے دن سے ان 'خرافات'کے لیے 'لوازمات' کا حکم نامہ جاری کر لیا تھا. "
"باقاعد اعظم " ڈاکٹر علی محمد خان کا خاکہ ہے. انکی سوانح کو کمال برجستگی سے ,روانی سے رقم کرتے جاتے ہیں.
"خاں صاحب کے بارے میں شنید ہے کہ یہ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی رفیق الطلبی کا شکار تھے. شادی کے فوری بعد بیوی سے شدید محبت کی بنا پر یہی جذبہ رقیق القلبی میں تبدیل ہوگیا. "
"مجھے اس بات کا خوب تجربہ ہے کہ جس دن ہم تمام دوست اپنی بیویوں سمیت ان کے گھر سے ہو آئیں ہمارا اپنے گھر میں رہنا دشوار ہوجاتا ہے. اچھی بھلی تابع فرمان بیویاں چِھبیاں دے دے کے کہنے لگتی ہیں. 'کچھ سیکھیں خاں صاحب سے'. "
"ڈاکٹرصاحب کے بارے میں اور کیا بتاؤں کہ یہ پرلے درجے کے سیلف میڈ, سیلف سینٹرڈ اور سیلف سٹارٹ آدمی ہیں. درس وتدریس کا نصف صدی سے زائد تجربہ ہے لیکن آج تک تھکاوٹ, اکتاہٹ اور ہچکچاہٹ نے ان کے گھر کا رستہ نہیں دیکھا. "
ڈاکٹر صاحب کی تیزی اور ہوشیاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.
"چور نالوں پنڈ کاہلی, والی مستعدی پہ سرسری بھی نگاہ ڈالیں تو ہم انہیں بڑی آسانی سے باقاعدِ اعظم کا لقب عطا کرسکتے ہیں.
"بڑے بھائی " کے نام سے حسین احمد شیرازی کا خاکہ لکھتے ہیں.ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو پرت در پرت کھولتے جاتے ہیں.دوسروں کو خلوص و وفا کا پیکر کہنے اور ثابت کرنے میں اشفاق ورک صاحب کو کمال حاصل ہے. وہ اپنی خاکہ نگار عینک سے شخصیت کے اندر تک جھانک لیتے ہیں. کسی کی افسری یا برہمی سے مرعوب ہوتے نظر نہیں آتے.
پروفیسر اکرم سعید کے بعد پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کا خاکہ ہے. ان کی شخصیت کا ہو بہو عکس .جیسے وہ آئینے کے سامنے ہوں اور ہم ان کے پیچھے کھڑے انہیں دیکھ رہے ہوں.
'مخبورالحواس' کا پہلا فقرہ ہی سو پہ بھاری ہے.
"جسامت ایسی کہ پوری طرح دیکھنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتے ہیں.ذرا غصے سے دیکھ لیں تو نظر ہی نہیں آتے, لیکن جب بولنے لکھنے پہ آتے ہیں تو باون گزے بن جاتے ہیں. "
ایسی شائستگی سے خاکہ نگاری کرنا کہ سب کہہ بھی جائیں اور منفی بھی نہ لگے. شائستہ اور پرخلوص اسلوب ہی اشفاق ورک صاحب کو انفرادیت بخشتا ہے.
آپ شخصیت میں وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کو استہزاء کا نشانہ نہیں بناتے بلکہ خوب سراہتے ہیں. ایک کلرک کو اپنے تعلیمی سفر جاری رکھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کی ہمت کو بار بار خراج پیش کرتے ہیں.
"ان کا تعلیمی سفر تو زندگی بھر کچھوے کی رفتار سے جاری رہا, لیکن اس احساسِ کمتری کو دور کرنے اور ماضی کے ازالے کے پیشِ نظر انہوں نے بچوں کو خرگوش کی رفتار سے پڑھانا شروع کیا. "
"ان کے سر کی طرف دھیان چلا جائے تو قیاس ساتھ چھوڑ جاتا ہے. سمجھ نہیں آتی کہ یہاں کب سے بے بال و پری کا عالم ہے. "
'ایک اور ضیا' کے عنوان میں ڈاکٹر ضیا الحسن اپنی مکمل سنجیدگی سے براجمان نظر آئے.
"یہ ضیا ہیں, ہمارے سینئر کلاس فیلو(حاضرین! یاد رہے یہ وہ زمانہ تھا جب' ضیا' ہونا معنی رکھتا تھا) "
جناب اشفاق ورک صاحب کی تخلیقی اڑان اور شوخ مزاجی اس پورے خاکہ میں عروج پر نظر آئی.ہر ایک جملہ کثیر المعنی اور قابلِ داد ہے.بات سے بات نکالنے کا فن اس سینئر کلاس فیلو کا خاکہ لکھتے ہوئے خوب کھل کر سامنے آیا.تعلیمی دور, پنجاب یونیورسٹی کی روایتیں اور حکایتیں.ڈاکٹر ضیا الحسن کی ملازمت, مزاج, محبت اور مدعیت کا ذکر اتنی محبت سے کیا کہ سماں باندھ دیا.
اشفاق ورک صاحب خاکے میں شخصیت کی ظاہری وضع قطع کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ متنوع موضوعات پر بات کرتے ہیں. متعلقہ شخص کی زندگی, تعلیم, طور اطوار مزاج, اخلاق اور جزئیات نگاری کی آخری حد تک جاتے ہیں. چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی انکی نظرِ خاکہ نگاری سے بچ نہیں پاتی. الفاظ کے چناؤ میں قرینہ ہے اور جملوں کی بنت میں بہت سلیقہ , بلا کی روانی ہے.
زندگی میں بہت سے لوگوں سے میل ملاقات, تعلق اور واسطے رہے لیکن اشفاق ورک صاحب جیسی شخصیت اور طبیعت کی روانی, جولانی پوری شفافیت کے ساتھ کم ہی دیکھنے کو ملی. جو انسان کو بطور انسان دیکھتے ہیں, سوچتے ہیں اور پورے طمطراق اور آزادی سے خاکے تراشتے ہیں.ان کی اسی درویشی اور بذلہ سنجی کی زد میں ان کی ایک انوکھی طالبہ بھی آگئی.جو میری نظر میں تو بہت خوش قسمت ہے جسے ایسے ذہین فطین ,بامروت,باکردار استاد اور دوست میسر آئے.
کہتے ہیں "ذونیرا بخاری ہمارے نہایت محترم دوست پروفیسر طاہر بخاری جیسی وضع دار شخصیت اور محترمہ شاہدہ بخاری جیسی سلیقہ شعار خاتون کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے'یعنی انکی مشترکہ اکلوتی اور لاڈلی اولادہے."
"یہ ہے تو انگریزی کی طالبہ لیکن اردو ادب کا ذوق اسے ورثے میں ملا ہے. یہ لٹریچر میں گندھی ہوئی ایک بےچین روح ہے. "
"انگریزی ہم دونوں کی کمزوری ہے, وہ اس طرح کہ مجھے آتی نہیں, اس کی ختم ہی نہیں ہوتی. "
"عجیب و غریب خواہشات کا ایک جوار بھاٹا ہے جو اس کے تن بدن میں ہمہ وقت انگڑائیاں لیتا رہتا ہے. "
'کوکو کورینہ 'ایک خوب صورت ادبی لب ولہجے کا خاکہ
اور 'اماں بعد' تو کمال تحریر ہے. محب اور فرمانبردار سپوت کا احساس ایک ماں کو فرش سے عرش پر متمکن کر دیتا ہے اس پہ ماں کو جو مقام عرش والے نے عطا کر دیا ہے وہ الگ.
"میں آج بھی آپ کی دکھ بھری زندگی پہ نظر کرتا ہوں تو مجھے اس میں مامتا کم اور 'ماتما' زیادہ دکھائی دیتی ہے."
ماں کے دکھوں کا حرف حرف حساب رکھنے اور نم آنکھوں سے ماں کے حوصلے سراہنے والا یہ بیٹا اشفاق احمد ورک اسی حساس اور محبت بھری فطرت کی وجہ سے ہی دین و دنیا کے مراتب پا رہا ہے. دلوں پہ گہرے نقوش چھوڑ رہا ہے.
اس سارے خاکے کا ایک ایک لفظ درد سے, احساس سے, وفا سے عبارت ہے. خاکہ اختتام تک آتے آتے نصف صدی کا قصہ نپٹا رہا ہے.ایک محبت کرنے والا بیٹاجنت میں مقیم ماں اور باپ کو دل کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے.آخری سوال نے تو آنسوؤں کو چھلکنے پہ ہی اکسا ڈالا.
" ماں جی! مجھے احساس ہے کہ میں آپ کی اخروی خوشحال زندگی میں مسلسل مخل ہورہا ہوں. بس مجھے آپ سے آخری بات صرف یہ کرنا تھی کہ کسی وقت اپنے میاں کو ساتھ لے کے اللہ میاں سےباتوں باتوں میں اتنا تو پوچھ لیجیے کہ اس نے آپ لوگوں کو آٹھ بچے دیے, چار کو شرع ہی میں اوپر بلا لیا اور چار کو اسی فانی دنیا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا...کیا کبھی ان آٹھوں بچوں کو ایک ساتھ اپنے والدین کے ساتھ رہنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں؟؟؟؟"
اس تحریر کو خاکہ کی دنیا میں ماسٹر پیس کہا جا سکتا ہے. بہترین ادبی فن پارہ.
'ایک بیوی ہے چار بچے ہیں ' اپنی فیملی کے بارے میں پیارا سا خاکہ ہے. ربِ ذوالجلال ان کی خوشحال زندگی کو ہمیشہ شاداب رکھے.
لاہور سے مکالمہ, قصہ چہار درویشنی, کان, مسٹر حلال کمیٹی اور فقریالوجی کی ہر سطر سنہری ہے. زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہے. پوری کتاب پڑھنے کے بعد ایک عجیب طرح کی طمانیت اور سکون نے دل میں جگہ بنا لی. علم وہنر کی باتیں اپنی جگہ شوخیاں اور ظرافتیں, احساس اور محبتیں آپ کو پوری طرح زندگی گزارنے کے ہنر سے واقفیت دے رہی ہیں. بہت سارے لوگوں کے تلخ و شیریں تجربات نے میری رگوں سے کسی قدر دکھ, تاسف رائیگانی کے احساس کو زائل کردیا ہے.
بہت سی نیک خواہشات. ثمینہ سید
1 Comments
بہت بہت شکریہ جناب.
ReplyDelete