کسی کے وسطے خود کو بدل سکا بھی نہیں ۔ ڈاکٹر عاصم بخاری

کسی کے وسطے خود کو بدل سکا بھی نہیں ۔ ڈاکٹر عاصم بخاری
کسی کے وسطے خود کو بدل سکا بھی نہیں ۔ ڈاکٹر عاصم بخاری 

 

غزل

کسی کے واسطے خود کو بدل سکا بھی نہیں

حصار_ ذات سے باہر نکل سکا بھی نہیں


میں ایک حرف کی صورت، رہا ہوں ہونٹوں پر

مگر دعا میں لبوں پر مچل سکا بھی نہیں


میں سوچتا ہوں، مشیت ہمیں یہاں لائی

کوئی گمان دلوں میں ، جو پل سکا بھی نہیں


عجیب کیف کا عالم تھا اس کی محفل میں

میں اٹھ گیا تو قدم بھر کو چل سکا بھی      نہیں


کھڑے ہوئے تھے حوادث، قطار میں عاصم

مرا نصیب، میں ان سے سنبھل سکا بھی نہیں


ڈاکٹر عاصم بخاری

Post a Comment

0 Comments