![]() |
ہم غریبوں سے کون باتیں کرے ۔ محمد علی سعد ملک |
غزل
ہم غریبوں سے کون باتیں کرے
کم نصیبوں سے کون باتیں کرے
کون مسکائے میری وحشت پر
ناشکیبوں سے کون باتیں کرے
گل مگن ہیں نشاط ِ ہستی میں
عندلیبوں سے کون باتیں کرے
اس کا نمبر تو یاد ہے لیکن
اب رقیبوں سے کون باتیں کرے
دار کو کون زندگی سمجھے
ان صلیبوں سے کون باتیں کرے
سعد خاموش رہ کے بولتے ہیں
ہم عجیبوں سے کون باتیں کرے
محمد علی سعد ملک
0 Comments