![]() |
معروف شاعر ظہور چوہان کا تعارف اور شاعری ۔ انتخاب بابر شکیل ہاشمی |
انتخاب (بابر شکیل ہاشمی) معروف شاعر ظہور چوہان1971 کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ جبکہ اس وقت بہاولپور میں مقیم ہیں۔ درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اُنہیں نے اپنے شعری سفر کا آغاز 1990 میں کیا۔ اب تک اُن کے چار شعری مجموعے ، “ہجر اک مسافت ہے” ۔ “پس ِ غبار اک ستارہ” ۔ “گونجی صدا حویلی میں” اور “روشنی دونوں طرف شائع ہو چکے ہیں۔ جبکہ ایک غزل اور ایک نظم پر مشتمل شعری مجموعہ زیرِ طبع ہے۔۔۔
ظہور چوہان کی شاعری کے حوالے سے معروف شعراء و ناقدین اپنے مضامین و آراء تحریر کر چکے ہیں۔ معروف اخبارات و رسائل میں اُن کی شاعری چھپ چکی ہے۔ علاوہ ازیں ایم-فل سطح کا تھیسس بعنوان “ ظہؔور چوہان - بحیثیت شاعر” بھی لکھا جا چکا ہے-ظہور چوہان کی شاعری میں انفرادیت، عصری شعور، ہجر و وصال کے مختلف ذائقے ، آفاقیت ، تصوف، تمثیل نگاری ، علامت نگاری اور حقیقت پسندانہ رویہ نمایاں ہے۔ اُنہوں نے اپنے ذاتی تجربات کو اجتماعیت کے روپ میں ڈھال دیا ہے۔ اُن کی شاعری کا مطالعہ کر کے ناصر کاظمی ، احمد مشتاق اور منیر نیازی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ لیکن اُن کا انفرادی رنگ غالب رہتا ہے۔
۔
چند اشعار پیش ِ خدمت ہیں:
میں اپنے آپ میں تقسیم ہونے لگتا ہوں
اُسے کہو ! کہ مرے سامنے نہ آیا کرے
۔
شہر کے چوراہے میں آنکھیں رکھ دی ہیں
بچ کر وہ اِس بار کدھر سے نکلے گا
۔
چراغ ِ شام جو روشن ہوا حویلی میں
کسی کی یاد کا دفتر کُھلا حویلی میں
۔
نئے گھر میں ہر اک شے بھی نئی ہے
مگر خوشبو اُسی کی آ رہی ہے
۔
ایک دنیا مرے اطراف ہے آباد ظہؔور
گھر سے باہر مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے
۔
رہتا ہوں میں جتنا ساتھ سب کے
لگتا ہے اکیلا ہو گیا ہوں
۔
شاعری اپنا لہو اِس لئے دیتا ہوں تجھے
جانتا ہوں کہ تُو زندہ مجھے کر سکتی ہے
۔
کبھی کبھی تو مرا گھر بھی مجھ سے پوچھتا ہے
کہ اِس جہاں میں کوئی تیرا گھر بھی ہے کہ نہیں
۔
ہمیں نہ دفن کرو کچی پکی قبروں میں
ہم اہل ِ علم ہیں ، مَر کر بھی جو نہیں مرتے
۔
پوری ہو جاتی اگر کوئی کہانی ہوتی
یہ محبت ہے میاں! اِس میں کسک رہتی ہے
۔
عشق کی جادو گری سے نہیں بچتا کوئی
ایک دن دیکھنا تم بھی مرے ہو جاؤ گے
۔
جس کو کبھی گنوا دیا ، کار ِ جہاں کے درمیاں
چاہا تو تھا کہ ہم اُسے بار ِ دگر پکارتے
۔
نسل وہ باقی کہاں بچی ہے ہجرت کرنے والوں کی
اب تو قطاریں لگی ہوئی ہیں جیسے مرنے والوں کی
۔
دل روتا نہیں یونہی ہمارا
گُم ہو گیا ہے کوئی ہمارا
۔
ہجر سے وصل کی اتنی تھی مسافت یارو !
رنگ تبدیل ہوا بہتے ہوئے پانی کا
۔
میں روز دانہ نہیں ڈالتا پرندوں کو
کہ بھول جاؤں تو وہ چھت پہ بیٹھے رہتے ہیں
۔
سخن کے آخری در پر صدا لگاتا ہوں
ظہؔور اگلے زمانوں سے گفتگو ہے مری
0 Comments