جنید آذر
![]() |
معروف شاعر جنید آزر کا تعارف ۔ تحریر ثمینہ سید |
جنید آزر عصرحاضر کے بہت معتبر اور نامور شاعر
شائستہ لب و لہجے اور سلجھے ہوئے مزاج کے شاعر ہیں.
شعری مجموعے۔۔
کاغذ کی راکھ ۔۔۔ 1998
اشارہ ۔۔۔ 2008
کشف ۔۔ زیر اشاعت
چار کتب ۔۔ تحقیق
ان کی شاعری پڑھئے اور سر دھنئے
ایک شعر ۔۔۔
وحشتوں سے باغ کی رونق ہی پھیکی پڑ گئی .
موسم گل میں بھی ہے خلق خدا سہمی ہوئی
اور شعر دیکھئے
ایک شعر ۔۔۔
میرے لب پر سوال آتا نہیں
آپ کو خود خیال آتا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ حالات کے تناظر میں ۔۔
خوف میں ڈوبے ہوئے، سایوں سے ڈرنے والے
دل بڑا رکھ! کہ یہ دن بھی ہیں گزرنے والے
آزمائش کے شب و روز رہیں گے کب تک
کچھ زیادہ نہیں موسم یہ ٹھہرنے والے
فاصلے ہو ہی نہیں سکتے دلوں میں حائل
دوریوں سے نہیں ہم لوگ بکھرنے والے
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا
ہمیں تو کرنے ہیں جو کام ہیں کرنے والے
یہ بھی کچھ دن میں چلا جائے گا ہا ہو کر کے
اس سے پہلے بھی کئی آئے تھے دھرنے والے
زندگی تو کبھی تنہائی میں ملنا آ کر
تیری تصویر میں کچھ رنگ ہیں بھرنے والے
جگمگاتی ہے مری صبحِ تمنا تجھ سے
میری آنکھوں میں سرِ شام اترنے والے
ہر بلا تیری ہی رحمت سے ٹلی ہے اب تک
میرے سینے میں نئی خواہشیں بھرنے والے
******************
ایک اور غزل کے اشعار دیکھئیے
خون سے لکھتا ہے تعویز اجل کاغذ پر
وقت کرتا ہے عجب سفلی عمل کاغذ پر
رنج مٹنے کا نہیں پھر بھی تسلی کے لیے
مصرعِ درد کی ترتیب بدل کاغذ پر
یہ تخیل ہے کہ امڈا ہوا دریا کوئی
موجہ ء آب رواں ہے کہ غزل کاغذ پر
کتنے جذبے تری بے راہ روی نے کچلے
حرف آوارہ! ذرا دیکھ کے چل کاغذ پر
کھیتیاں کیا کیا اگاتا ہوں سر دشت خیال
لہلہاتا ہے کوئی پھول نہ پھل کاغذ پر
لفظ جب آ کے چمکتا ہے سر نوک قلم
روشنی دیتا ہے مہتاب ازل کاغذ پر
جب کبھی چاہا لکھوں جھیل تری آنکھوں کو
تیرنے لگتے ہیں خوشبو کے کنول کاغذ پر
تتلیاں آنے لگیں پرسہ ء غم کی خاطر
تجھ سے یہ کس نے کہا پھول مسل کاغذ پر
روشنائی کو ہمہ گیر اجالے میں بدل
اپنی فطرت کی سیاہی تو نہ مل کاغذ پر
اور کچھ دیر میں یہ رنگ نکالے گی کئی
یہ جو بکھری سی ہے نوخیز غزل کاغذ پر
جنیدآزر
0 Comments